داستان‌نویسی قرآنی آرٹ کو منتقل کرنے کا اہم زریعہ

IQNA

قرآنی محقق ایکنا سے:

داستان‌نویسی قرآنی آرٹ کو منتقل کرنے کا اہم زریعہ

8:25 - April 14, 2024
خبر کا کوڈ: 3516209
ایکنا: گینه بیسائو کے قرآنی محقق نے قرآنی داستانوں کی طرف اشارہ کرتے ہویے کہا کہ داستان نویسی قرآنی تعلیمات کو منتقل کرنے کا بہترین آرٹ ہے۔

ایکنا: گنی بساؤ سے تعلق رکھنے والے قرآنی محقق اور المصطفیٰ یونیورسٹی (ص) کے پی ایچ ڈی کے طالب علم نے ایکنا کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پہلی بار بین الاقوامی قرآنی نمائش کا دورہ کیا ہے۔ انکا کہنا تھا"میں ایک میٹنگ میں شرکت کے لیے آیا ہوں، میں اس بین الاقوامی قرآنی نمائش میں آیا ہوں اور مجھے قرآن سے بہت دلچسپی ہے۔ میں قرآن مجید کا حافظ ہوں اور میں نظم و نسق اور قرآن مجید کے شعبے میں زیر تعلیم ہوں اور قرآن کریم سے گہری دلچسپی کی وجہ سے میں تمام قرآنی حلقوں میں سرگرم ہوں۔

 

اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ وہ قرآن کریم کو بہت اہمیت دیتے ہیں، انہوں نے کہا کہ وہ پورے قرآن کے حافظ اور قاری ہیں اور گنی بساؤ کے ملک میں بھی مصروف ہیں۔ اسکولوں اور قرآن اسکولوں میں بچوں اور نوعمروں کو قرآن کی تعلیم دینے میں بھئ سرگرم ہے۔

 

موسیٰ دیبو نے ایران کی قرآنی سرگرمیوں کے بارے میں کہا: میرے خیال میں ایران کی بین الاقوامی قرآنی نمائش جیسی تقریبات کا انعقاد دنیا میں بہت کم ہے اور خدا کا شکر ہے کہ ایرانی عوام اس طرح کی تقریبات کے انعقاد میں منفرد ہیں۔

 

اسلامی جمہوریہ ایران میں نایاب قرآنی سرگرمیاں

 

انہوں نے مزید کہا: ہم نے مختلف ممالک کا سفر کیا ہے اور قرآن کے میدان میں ان ممالک کے لوگوں کی سرگرمیوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ ہم نے مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے شہروں میں ہونے والی سعودی نمائشوں میں بھی شرکت کی ہے لیکن قرآنی سرگرمیاں اور قرآن کریم کے لیے لوگوں کی جتنی اہمیت ایران جیسے کسی ملک میں نہیں ہے اور ایران کے لوگ اس میدان میں واقعی منفرد ہیں۔

 

اس افریقی محقق نے قرآن اور اسلام کے پیغام کی ترویج کے لیے فنی سرگرمیوں کے کردار کے بارے میں وضاحت کی اور کہا کہ قرآنی نمائش جیسی تقریب کا انعقاد اس پیغام کو فروغ دینے میں کس حد تک اثر انداز ہو سکتا ہے کہا کہ: دنیا کے لوگ ظلم اور تکبر سے نہیں بچ سکتے جب تک کہ وہ قرآن کی طرف نہ لوٹے۔ اس طرح جو قرآن نمائش کے انعقاد کے ذریعے لوگوں کے لیے کھولا گیا ہے، اس طرح لوگ قرآن کی طرف لوٹ سکتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قرآن" «تبیاناً لکلِّ شیءٍ» ہے۔

 

 
حیات واقعی، زندگی کردن با اهل بیت‌ علیهم السلام است
 

انہوں نے مزید کہا: اگر ہم لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح ظلم اور استکبار سے بچانا چاہتے ہیں جیسا کہ خدا نے قرآن پاک میں فرمایا ہے «وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا» ) (سورۃ آل عمران/103) ہمیں انہیں قرآن کی طرف لوٹانا چاہیے۔  رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں لوگ بتدریج تباہی کی طرف جارہے تھے اس لیے تمام لوگوں کو بچانے کے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا گیا۔

دیبو نے پوری دنیا میں موجود ظلم اور استکبار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہم رفتہ رفتہ اس مقام پر پہنچ رہے ہیں کہ کوئی دوسرے پر رحم نہیں کرتا اور انسانیت حیوانیت میں بدل رہی ہے۔ اس لیے جب ہم جانوروں کی طرح ہو جاتے ہیں تو تباہی کی طرف بڑھتے ہیں۔ کیونکہ ہم انسانی چہرے کو چھوڑ کر جانوروں کی فطرت کو اپنا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن اور قرآنی تعلیمات کو اہمیت دینا لوگوں کے دلوں کو زندہ کرتا ہے  اور لوگ اپنی حیوانی شکل سے نکل کر انسانی حقیقت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور مکمل انسان بن جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں وہ اایکدوسرے پر رحم بھی کرتے ہیں۔

 

قرآنی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں مسلمان فنکاروں کی کامیابی کی سطح کے بارے میں انہوں نے کہا: ہم یہ نہیں کہتے کہ فنکار مکمل طور پر کامیاب ہوئے ہیں، لیکن الحمدللہ انہوں نے کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں اور انہوں نے لوگوں کے لیے جو کھڑکیاں کھولی ہیں، ان سے لوگوں کوحق تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔  اور اگر وہ ایسا کرتے رہے تو بڑی کامیابی حاصل کریں گے۔

 

کہانیاں لکھنا؛ قرآن کی نازل شدہ تعلیمات کی ترسیل کا سب سے اہم ذریعہ

 

اس قرآنی محقق نے اس سوال کا جواب دیا کہ مختلف ممالک جیسے سعودی عرب، ترکی اور ملائیشیا ہر ایک فن کی زبان کو اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے استعمال کرتا ہے، قرآنی تعلیمات کی ترویج کے لیے فن کی زبان کا استعمال ممکن ہے۔ میرے خیال میں کہانی لکھنا زیادہ اہم ہے، کیونکہ خود قرآن نے مختلف مسائل کو کہانیوں کے ساتھ بیان کیا ہے اور انبیاء کی کہانیاں اور مختلف واقعات، اچھے اور برے دونوں واقعات پیش کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ لوگ قرآن کے قصے بھول گئے ہوں، اس لیے ہم وہ قصے لوگوں کو سناتے ہیں تاکہ وہ یاد دلائیں، خاص طور پر اہل بیت علیہم السلام کی زندگی کی داستانیں۔

 

انہوں نے مزید کہا: اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ ایران میں ماہ رمضان دوسرے اسلامی ممالک کے ماہ رمضان سے مختلف ہے، کیونکہ ایران کے لوگ حضرت علی(ع)، حضرت فاطمہ(س)، امام حسن اور امام حسین کو یاد کرتے ہیں۔ (ع) اور تمام اہل بیت (ع) اور چھوٹے بچے بھی ان واقعات کو یاد کرتے ہیں جو رمضان کے مہینے میں اہل بیت (ع) کے ساتھ پیش آئے تھے۔ اس لیے ان کہانیوں کو یاد کرنے سے انسانی ذہن و ضمیر زندہ رہتا ہے۔

 

حیات واقعی، زندگی کردن با اهل بیت‌ علیهم السلام است

 

موسی دیبو نے تاکید کی: حقیقی زندگی کے بغیر اس دنیا میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہ زندگی جس کو خدا نے آیت میں بیان کیا ہے " «وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا»" (سورہ مائدہ/32)، زندگی کی حقیقت ہے، نہ کہ صرف زندہ رہنا جس کا ہم دنیا میں گواہ ہیں۔ اہل بیت(ع) کے بغیر زندگی حقیقی زندگی نہیں ہے۔ زندگی کی سچائی کا مطلب عزت کے ساتھ جینا ہے اور ایران کے لوگ اس طرف بڑھ چکے ہیں، اسی لیے وہ دن بدن ترقی کر رہے ہیں۔

 

آخر میں انہوں نے واضح کیا: ایران کی پیشرفت لمحوں کی بات ہے اور یہ ہر سیکنڈ میں بلند ہوتی جارہی ہے کیونکہ ایرانی عوام کا دل اہل بیت(ع) کے دل سے جڑا ہوا ہے اور اہل بیت بھی اسی طرح ہیں جیے قرآن اور قیامت تک زندہ رہے گا۔/

 

4209714

نظرات بینندگان
captcha